دعوت و تبلیغ
   
 
 

(القرآن پارہ ۴ ، آیت ۲)
اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہئیے جواچھائی کا حکم دینے والی ہو اور برائی سے روکنے والی ہو ۔ یہ کامیاب لوگ ہیں۔

(القرآن پارہ ۴ ، آیت ۳ )
تم بہترین اُمّت ہو کہ لوگوں کے (نفع رسانی) کے لئے نکالے گئے ہو۔ تم لوگ نیک کام کا حکم کرتے ہو اور بُرے کام سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔

(القرآن پارہ ۴۲ ، آیت ۱۹ )
اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بُلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔

(القرآن پارہ ۷۲ ، آیت ۲ )
اے مُح±مَّد(صَلَّی اللہ ُ عَلَیہ وَسَلَم) لوگوں کو سمجھاتے رہئیے کیونکہ سمجھانا ایمان والوں کو نفع دے گا۔


دعوت و تبلیغ

اس کا مقصد یہ ہے کہ ہم دین کو سیکھتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہوئ
ے دوسروں پر اس کے محنت کریں۔ حضور نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختمِ نبوت کے طفیل پوری اُمت کو دعوت والا کام ملا ہے۔ اس کے لئے نبیوں والی طرز پر ہم اپنی جان ، مال اور وقت کے ساتھ اللہ کے راستے میں نکلیں اور لوگوں کو اللہ اور اُس کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائیں تاکہ پورا دین پوری دُنیا میں پھیلے اور زندہ ہو۔ اللہ رب العزت خود کلام مجید میں ارشاد فرماتے ہیں۔

۱۔ اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کوسمجھاتے رہو کیونکہ
سمجھانا ایمان والوں کو نفع دیتا ہے۔

۲۔ اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ دیجئے یہ ہے میرا راستہ۔ بلاتا ہوں اللہ کی طرف حکمت ، بصیرت کے ساتھ میں بھی اور جس نے میری اتباع کی

۳۔ اے محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم ! اپنے متعلقین کو بھی نماز کا حکم کرتے رہئے۔ اور خود بھی اس پر پابند رہئے۔ ہم آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے معاش نہیں چاہتے ، معاش تو آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہم دیں گے اور بہتر انعام تو پرہیز گاری ہی کا ہے۔

۴۔ اور اس سے بہتر کس کی بات ہو سکتی ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔

۵۔ بیٹا نماز پڑھا کر اور اچھے کاموں کی نصیحت کیا کر اور برے کاموں سے منع کیا کر، اور تجھ پر جو مصیبت واقع ہو اس پر صبر کیا کر کہ یہ ہمت کے کاموں میں سے ہے۔

۶۔ تم بہترین اُمت ہوکہ لوگوں کے (نفع رسانی) کے لئے نکالے گئے ہو۔ تم لوگ نیک کاموں کا حکم کرتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اور تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونا ضروری ہے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک کاموں کے کرنے کا کہا کرے اور بُرے کاموں سے روکا کرے اور ایسے لوگ پورے کامیاب ہوں گے۔

۷۔ عام لوگوں کی اکثر سرگوشیوں میں خیر و برکت نہیں ہوتی۔ مگر جو لوگ ایسے ہیں کہ صدقہ خیرات کی یا اور کسی نیک کام کی یا لوگوں میں باہم اصلاح کی ترغیب دیتے ہیں۔ اور جو شخص یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کرے گا ان کو ہم عنقریب اجر ِ عظیم عطا فرمائیں گے۔

۸۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ نیک بات سکھلاتے اور بُرائی سے منع کرتے ہیں۔




دعوت و تبلیغ کے فضائل

۱۔ رسول مقبول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ پاک کے راستے میں ایک صبح یا شام گزارنا دُنیا مافیھا سے بہتر ہے۔

۲۔ سیدالکونین صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک ارشاد کا مفہوم ہے کہ ایک ہی شخص پر اللہ کے راستہ کا گردوغبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہوسکتے۔

۳۔ حضوراقدس صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ اگر تیری وجہ سے ایک شخص کو اللہ پاک ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے سُرخ اُونٹوں سے بہتر ہے۔

۴۔ اللہ کے راستہ میں ایک رُوپیہ خرچ کرنے پر سات لاکھ روپے صدقہ کرنے کا اجر ملتا ہے۔ بدنی عبادات کا ثواب ایک سبحان اللہ کہنے پر یا نماز پڑھنے پر انچاس کروڑ کا اجر ملتا ہے۔

۴۔ نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دُعا کا مفہوم ہے ک خوش رہے، سرسبز و شاداب رہے، وہ شخص جو میری بات کوسنے ، اس کو محفوظ کرے اور من وعن اس کو دوسروں تک پہنچادے۔

۶۔ جو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی محنت کرے گا وہ زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے۔ اللہ کی کتاب کا خلیفہ ہے اور اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیفہ ہے ۔ جو اللہ کے راستے میں نکلے گا اللہ اس کی دُعائیں نبیوں کی طرح قبول کریں گے۔

۷۔ حضرت حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ رسول اکرام صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے دین کی حفاظت کی، غرض ایک علاقے سے دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کی ، خواہ ایک بالشت ہی سفر کیا ہو۔ تو اس نے جنت اپنے لئے لازم کر لی اور وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھی بنے گا۔ ( تنبیہ الغافلین )

۸۔ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص کسی ناجائز امر کو ہوتے ہوئے دیکھے۔ اگر اس پر قدرت ہو کہ اس کو ہاتھ سے بند کردے تو اس کو بند کردے۔ اگر اتنی قدرت نہ ہو تو زبان سے اس پر انکار کردے۔ اگر اتنی بھی قدرت نہ ہو تو دل میں اس کو بُرا سمجھے اور یہ ایمان کا بہت ہی کم درجہ ہے۔

۹۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قسم کھا کر فرمایا کہ تم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو اور ظالموں کو ظلم سے روکتے رہو اور حق بات کی طرف کھینچ کر لاتے رہو ۔ ورنہ تمہارے قلوب بھی اس طرح خلط ملط کر دئیے جائیں گے جس طرح ان لوگوں کے کردیئے گئے اور تم پر بھی لعنت ہوگی جس طرح ان پر یعنی بنی اسرائیل پر لعنت ہوئی ۔

۰۱۔ فرمایا اگر کسی جماعت اور قوم میں کوئی شخص کسی گناہ کا ارتکاب کرتا اور وہ جماعت یا قوم باوجود قدرت کے اس شخص کو اس گناہ سے نہیں روکتی تو ان پر مرنے سے پہلے دُنیا ہی میں اللہ تعالیٰ کا عزاب مسلت ہوجاتا ہے۔




Click for Reading